گوادر کےماہیگیروں کی ٹرالنگ کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنےکا فیصلہ

تحریر: سلیمان ہاشم
عر صہ دراز سے بلوچستان اپنی منفرد طویل اور خوبصورت نیلگو ساحل کی وجہ سے تمام دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
حسین اور خوبصورت ساحل اور خوبصورت جزیروں پر مشتمل بلوچستان کا ساحل دنیا کے مختلف علاقوں سےآبی پرندوں اور سبز کچھوئےکی مسکن ہے۔

Astula Island ہفت تلار جزیرہ جہاں انسانوں کی آمد رفت کم ہے اس لئے بڑی تعداد میں یہ پرندے دنیا کے سخت سرد ترین علاقوں سے اُڑ کر بلوچستان کے ساحل کو اپنا مسکن بنا کر قیام کرکے انڈے دینے اس جزیرے کا انتخاب کرتی ہیں۔ اور اس کے گردونواں میں قیمتی مچھلیوں کی ایک بڑی تعداد کو پسنی کے قریب مقامی مچھیرےجا کر شکار کیاکرتے ہیں لیکن سندھ کی بڑی بڑی ماہی گیر ٹالروں نے بلوچستان کی قانونی حدود کی دھجیاں اڑا کر بالکل ساحل کے قریب آ کر سمندری آبی حیات کی بے دریخ نسل کشی کرتے ہیں ۔ اس آبی حیات کی فراوانی سے اب گوادر اور لسبیلہ کے ماہی گیروں کو اپنے ہی ساحل سے پریشانیوں اور محرمیوں نے گھیر رکھاہے۔ اس سے پہلے تو سندھ کے سرمایہ داروں نے سندھ فشریز اور چند ایک ماہی گیر دشمن مقامی لوگوں کے ساتھ ملکر ان کے کرتادھرتاوں کے ساتھ مل ملا کر بلوچستان کی آبی حیات کی لوٹ کھسوٹ میں دل کھول کر لوٹ مارمیں حصہ لیا۔

ماہی گیر طبقہ اکثر اس معاملے میں شاکی تھے۔ اور اکثر احتجاج کرتے تھے۔
کبھی حکمران کہا کرتے تھےکہ 18 ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو بہت اختیارات دئیے گئے ہیں لیکن افسوس کہ ان پر عمل در آمد کا موقع آج تک بلوچستان کےعوام کو نہیں ملا ساحل پر سندھ کے ٹالروں کی بے دریغ لوٹ مار کے بعد اب گوادر اور پسنی کے مچھیروں کے مطابق ساحل پر چاہینا کے ٹالروں و بحری جہاز جو آلات ماہی گیری سے لیس ہیں دیکھے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اس سلسلے میں

گوادر ماہیگیراتحاد کے سرپرست اعلیٰ اکبرعلی ریئس کی سربراہی میں ماہی گیروں کی ایک مٹینگ ہوئی جس میں مختلف ایجنڈوں پر تفصیلی بحث کی گئی ۔
گوادر ماہیگیراتحاد نے آل پارٹیز کے اشتراک سے ٹرالنگ کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنےکا حتمی فیصلہ کر لیا ہے اور بہت جلد بلوچستان فشرمین ورکر یونین جیونی، انجمن اتحاد ماہیگیران سربندن نے مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور گوادر آل پارٹیز اور سماجی تنظیم مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ پٹیشن دائر کریں ۔

ساحل پر کچھ دنوں سے ان بحری جہازوں کی مشکوک حرکات کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں سے فوری روابطہ کرنےکا فیصلہ کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ و متعلقہ اداروں کو چائنیز ٹرالرز کی حرکات و سکنات سے گوادر کے غریب ماہی گیر پریشان ہیں۔
اس سلسلے میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے علاوہ بلوچستان کی اسٹریٹ پاور سیاسی پارٹی نیشنل پارٹی نے گزشتہ دنوں بلوچستان کے کئی شہروں میں چاہینا کے ان جہازوں کی بلوچسان کے سمندر میں ماہی گیری کے خلاف سخت احتجاج کی۔اورریلیاں نکال کر اس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
سنیٹ میں بھی نیشنل پارٹی کے سنیٹر طاہر بزنجو نے چاہینا کے ان جہازوں کے ٹالرینگ کے خلاف وقتاََ فوقتاُُ سخت موقف اختیار کرکے احتجاج بھی کی ہے۔
نیشنل پارٹی کے سنئٹر کبیر محمد شہی نے بھی اس سلسلے میں چاہینا کے سفیر سے ملاقات کی اور
اور بلوچستان کے ساحل پر چاہینا کے ماہی گیر جہازوں کی موجودگی سے متعلق شکایت و خدشات کا بھر پور اظہار کیا تھا اور اس سلسلے میں پورے بلوچستان بشمول بلوچستان اسمبلی کے ایم پی اے میر حمل کلمتی نے بھی احتجاج کیا۔
اب اس سلسلے میں وفاقی وزیر جہاز رانی علی زیدی نے کیا ایکشن لی ہے؟ گوادر کے ماہئ گیر کہتے ہیں کہ اب بھی ساحل پر چاہینا کے فشنگ ٹالر دیکھائی دے رہے ہیں۔
چاہنیز ماہی گیر جہازوں کو لائسنس کیسے حاصل ہوئی ہے ؟
یہ بات اب تک چھپائی گئی ہے۔ جبکہ مکران اور لسبیلہ کے ساحلی علاقوں کے عوام کی 80% لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری سے وابسطہ ہے یا بارڈر ٹریڈ سے کیونکہ گوادر اور پسنی میں چند ایک فش فیکٹریوں کے علاوہ دیگر کوئی ذرائع معاش موجود نہیں۔ مکران کے اکثرو بیشتر زمینیں بارانی ہیں اکثر و بیشتر چھوٹی چھوٹی دریاؤں اور ندیوں پر ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال بارشوں کا کافی پانی دریا ندی نالوں سے ہوتے ہوئے سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے۔ لاکھوں ایکڑ زمین کاشت کاری کے قابل نہیں ہیں۔اور مکران کے اکثر علاقوں میں ہمیشہ خشک سالی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔
اگر سندھ اور چائنیز جہازوں کو پسنی کے چر بندر اور استولہ جزیرہ کے قریب نہ روکا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ مقامی ماہی گیر نان شبینہ کے محتاج ہونگے۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیرقانونی شکار پر ملکی و غیر ملکی جہازوں پر سخت پابندی لگائے ۔
بصورت دیگر ماہی گیر اپنے ساحل و وسائل کو محفوظ کرنے کے لئے مجبوداُُ عدالت میں پٹیشن داخل کرنے پر مجبور ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں