اسلام آباد (نوائے جنگ رپورٹ)سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس میں 4 صفات کا فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی جانب سے کیس قابل سماعت ہونے کی درخواست پر کسی نے بحث نہیں کی، 5 مئی اور 8 جولائی کو قابل سماعت ہونے کے دلائل پر درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے تسلی بخش شواہد پیش کیے اور شکایت کنندہ کے دیے گئے شواہد سے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف الزامات ثابت ہوتے ہیں، ثابت ہوتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جھوٹا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ 2018-19 اور 2019-20 میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کا جھوٹا ریکارڈ جمع کرایا گیا، 2020-21 میں فارم بی سے متعلق بھی جھوٹا ریکارڈ جمع کرایا گیا۔
سیشن جج ہمایوں دلاور کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے قومی خزانے سے لیے تحائف کا غلط فائدہ اٹھایا، توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کا ریکارڈ جھوٹا ثابت ہوا، چیئرمین پی ٹی آئی کی بے ایمانی پر کوئی شک نہیں ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تسلیم کیا کہ متعلقہ چیزیں اور اثاثےفارم بی میں ظاہر نہیں کیے، چیئرمین پی ٹی آئی نے مانا 19-2018 میں تحفےبیچ دیے تھےتو ظاہرکرنا ضروری نہیں سمجھا، فارم بی کے مطابق بیچےگئے، منتقل کیے گئےاثاثےکی تفصیل دینا لازم ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو اب بھی تحفے بیچنےاور ٹرانسفر کرنےکی تفصیلات دیناہیں، ثابت ہوتاہےچیئرمین پی ٹی آئی نے 19-2018 میں الیکشن کمیشن میں جھوٹا بیان حلفی دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی فراہم کردہ معلومات بعد میں غلط ثابت ہوئیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی بدنیتی بغیر کسی شک و شبے کے ظاہر ہو گئی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت سزا دی جاتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، جرمانہ نہ بھرا تو 6 ماہ مزید قید کی سزا سنائی جائے گی۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی فیصلے کے وقت کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے،آئی جی اسلام آباد کو وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کا حکم دیا جاتا ہے۔