ؒگوادر میں پانی کا ایک بار پھر شدید بحران

1958 سے گوادر سلطنت آف عمان کے دور سے ہی پینے کے صاف پانی اور بجلی کے بحران سے گزر رہا ہے۔
اگرچہ زمانہ قدیم سے گوادر ایک قدرتی اور محفوظ بندرگاہ کے طور پر مشہور تھا۔ افریقہ،خلیج کے ممالک،مشرق وسطی اور ہندوستان سے مال بردار کشتیوں اور بعد میں بحری جہازوں سے گوادر تجارت کا ایک اہم مرکز رہا۔

چھوٹی آبادی کو پینے کا پانی کوہ باتیل کے چھوٹے ڈیم اور اس کے دامن سے کنواں کھود کر میٹھا پانی حاصل کیا جاتا تھا۔
گوادر کا اکلوتا اور قریبی آنکاڑہ کور ڈیم گوادر سے صرف 25کلو میٹر کے فاصلے پر واقع بے 1993 کو بےنظیر بھٹوکے دور حکومت میں بنایا گیا۔ اس وقت گوادر شہر کی آبادی بمشکل 50ہزار تھی۔اور اُن دنوں بارشیں بھی بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔
گوادر ڈیپ سی پورٹ بناہی نہیں تھا تو گوادر کے نام سے بھی پاکستان کے اکثر لوگ نا واقف تھے۔ اور کوئی پرائیوٹ اور سرکاری منصوبے بھی نہ ہونےکے برابر تھے۔

غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گوادر کی موجودہ آبادی تقریباََ آڑھائی لاکھ سےزائد ہے ایک طرف گوادر ڈیپ سی پورٹ اور فیش ھاربر ہے تو دوسری جانب دنیا کے بڑے ائیر پورٹوں کی طرح کا ایک جدید ائیر پورٹ زیر تکمیل ہے۔
اور تیسری جانب گوادر سی پیک کی 19 کلو میٹر ایکسپریس وے روڈ گوادر ایسٹ بے میں زیر تکمیل ہے ان تمام منصوبوں کو زیادہ سے زیادہ پانی کی ضرورتوں کا انحصار آنکاڑہ ڈیم سے ہی تھا۔

نومبر 2020 کو کچھ بارش ہوئی اور اس میں کچھ پانی کا ذخیرہ ہو گیا۔
گزشتہ دو سالوں سے خشک سالی کی وجہ سے گوادر کو پانی گوادر سے 160 کلو میٹر دور کیچ کے علاقے میرانی ڈیم سے ٹینکروں کےذریعے پہنچایا
جاتا رہا ، جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔
پاک نیوی نے بھی ان ایام میں کراچی سے بحری جہازوں کے ذریعے پیاسےعوام کی ضرورتوں کی کمی کو پورا کرنے میں کافی تعاون کی۔
گوادر کی اہمیت کےپیش نظر مختلف زیر تعمیر منصوبوں کے لئے وافر مقدار میں پانی کی ضرورتوں کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا ہے۔
گوادر سے کلانچ کا یہ سوڈ ڈیم 65 کلومیٹر پائپ لائن پر اب تک تین ارب اسی کروڑ کی لاگت آئی ہے جبکہ سوڈ ڈیم پر 75 کروڑ کیو بک پانی کی گنجائش ہے 37 ھزار ایکڑ فٹ ہے، اسکی اونچائی 16 میٹر کھینچ منٹ ایریا 850 کلومیٹر ہے پانی فراہم کرنے کی صلاحیت یومیہ پچاس لاکھ گیلن ہے۔

لیکن اب تک یہ مکمل شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں کو پانی سپلائی کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اور کہا جا رہا ہے کہ اس ڈیم کی مٹی تیزی سےپانی کو چوس رہاے۔ اگر جلد بارشیں نہ ہوئیں تو یہ بھی سوکھ جائے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اربوں روپے ڈیزلیشن پلانٹ پر خرچ کئے لیکن وہ منصوبے اہنی آفادیت سے قبل ناکام و نا مراد ہوئے۔ ان پلانٹ سے عوام کو ایک لیٹر پانی تک نصیب نہ ہوئی بلکہ یہ پلانٹ سفید ہاتھی ثابت ہوئے۔

گوادر کے سب سے زیادہ پانی بحران سے متاثرہ ایرانی سرحد کے قریب کی تحصیل جیوانی شہر ہے حالیہ دنوں وہاں کے عوام نے گزشتہ ادوار کی طرح کافی احتجاج بھی کی اور اسی طرح کلانچ کے کئی دیہات اور سر بندن کا علاقہ بھی متاثر ہیں۔

گوادر میں پانی کی ضرورت کے پیش نظر موجودہ حکومت شادی کورڈیم بھی زیر تعمیر ہے پائپ لائن 360 کروڑ کی لاگت سے بن رہا ہے شادی کور ڈیم کے پانی کا مجموعی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 47 ھزار ایکڑ فیٹ ہے جبکہ آغاز میں یومیہ دس لاکھ گیلن پانی پسنی اور پچیس لاکھ گیلن پانی گوادر کو فراہم کیا جائیگا پائپ لائن پچاس لاکھ گیلن کی ہے۔

اب گوادر کے اکثر و بیشتر علاقوں میں گندہ اور مضّر صحت پانی پبلک ہیلتھ انجنئیر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے گوادر کے کئی علاقوں میں پیلے رنگت کا گندہ اور بد بو دار پانی سپلائی کیا جا رہا ہے، جو پینے کے قابل نہیں مجبوراََ غریب عوام اس کوپی رہے ہیں۔ اور ساتھ احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس پیلے رنگت کے پانی کے بوتل سوشل میڈیا کے توسط سے احکام بالا کو دکھائے بھی ہیں۔تانکہ انتظامیہ اس جانب متوجہ ہو۔

جس سے گوادر میں مختلف وبائی امراض پھیل رہے ہیں جن میں ملیریا، ڈنگی وائرس ٹائیفائیڈ، گردوں کے مختلف امراض اور ہیضہ اور دیگر مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ جہاں پہلے سے ہی مقامی اسپتالوں میں علاج معالجہ کی خاصں سہولت موجود نہیں۔
اگر جلد اس مسلئےپر قابو نہ پایاگیا تو گوادر میں ایکبار پھر میرانی ڈیم سے ٹینکرمافیاکے وارے نیارےہونے کے قوی امکانات نظر آ رہے ہیں جبکہ گوادر کی تمام سیاسی پارٹیاں اور سیول سوساہٹی اور سماجی تنظیمیں سرا پا احتجاج ہیں۔ دیگر تمام مسائل کو چھوڑ کر پانی اور بجلی کے مسئلے پر الجھا دئیے گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں