اگر شہباز گل کی موت واقع ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔؟

رپورٹ و تجزیہ آصف سلیم مٹھا
mithalondon@gmail.com

انگریز چلاگیا’ ان کی اچھی عادات تو بھول گئے مگر ہم نے ان کی بری حرکات کو مسلسل اپنایا ہوا ہے۔ شہباز گل نے یقینا سول افسران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ ماضی میں ن لیگ’ پی ہی پی اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما جرنیلوں کے نام لے لے کر سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ دشمن کی کوشش ہے کہ عوام اور عسکری اداروں کے مابین اعتماد کی فضا کو بد اعتمادی میں ڈھال دیا جائے مگر اس میں کوتاہیاں ناقابل قبول ہیں۔ شہباز گل پر بہیمانہ تشدد میں ان کے نرم و نازک تولیدی اعضائ’ سینے اور پھیپھڑوں پر کاری ضربیں لگائی گئی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کی حالت نازک ہے اور خدانخواستہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ شاید موت واقع ہوجائے؟ اگر ایسا ہوا تو اس بارے بننے والا کمیشن تاریخی ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے کہ سول اداروں کے کندھے پر رکھ کر بندوق کون چلا رہا ہے؟ اگر شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے پکڑا تو شہباز گل کو تھانے کی بجائے کہاں اغوا کر کے کون لے گیا؟؟؟ یہ سارے سوالات ہیں جن کے جوابات لینے کے لئے ایک غیر جانب دار کمیشن بنانا ضروری ہے جو اس بار بیچ چوراہے کے اس کا بھانڈا پھوڑ دے؟ آخر یہ بات تو واضح ہے کہ وفاقی حکومت میں تو اتنی سکت نہیں ہے کہ شہباز گل کے خلاف اتنا کچھ کرسکے؟ تو سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون ہے جو کچھ بھی کرنے سے پہلے ریاست اور عوام کے بھلے کا سوچتا نہیں؟ افواج پاکستان ملکی سالمیت میں کلیدی اہمیت کا حامل ادارہ ہے یہ الگ بات ہے کہ فوج کے سیاست میں آنے سے ادارے کی ساکھ خراب ہوئی ہے اس کے باوجود بھی ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر شہباز شریف تک دست بہ دست افواج پاکستان سے ہی مدد کے طلبگار ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ افواج پاکستان ایک منظم ادارہ ہے جبکہ سیاستدان اپنے ادوار میں ایک بھی مثالی ادارہ نہ بنا سکے۔ زلزلے سیلاب اور دیگر ناگہانی آفات میں فوج کو ہی پکارا جاتا ہے مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں بنتا کہ فوج ایسے افراد کی مدد کرے جو نااہل ہوں اور وہ عنان حکومت سنبھال لیں۔ اس قسم کے الزامات آج تک سیاستدان ایک دوسرے پر دھرتے ہیں مگر شہباز گل پر غداری کے مقدمے کو دیکھ کر حسرت موہانی پر 1908 ئ’ میر شکیل الرحمان پر 1992 اور عمران ریاض خان پر 2022 ء میں بھی جو مقدمات سامنے آئے ہیں اس سے انگریز کا برصغیر پاک و ہند میں دور حکومت کی یادیں تازہ کر رہے ہیں۔ وطن عزیز میں ابھی تک وہ قوانین اپنی تازگی سے ہرے بھرے نظر آتے ہیں جو انگریز نے عوام کو قابو میں رکھنے کے لئے بنائے تھے۔ ریاست کے افراد یا ادارے جتنے بھی طاقت ور ہوں انہیں قانون سے کھلواڑ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح حالیہ گرفتاریوں سے جنگ آزادی 1857 کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ انگریز تعلیم کے بل بوتے پر کہاں سے کہاں نکل گیا؟ ہم آج بھی اندرون ملک غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شہباز گل کے بیان یا گفتگو کا غلط مطلب اخذ کر لیا گیا؟ عوام نے عمران خان سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ ماضی میں افواج پاکستان پر ہرزہ سرائی کرنے والوں پر کے پی کے اور پنجاب میں ثبوتوں کے ساتھ مقدمات درج کروا کے اعلی عدالتوں سے قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دلوائی جائے۔ آصف علی زرداری’ نواز شریف’ شہباز شریف’ مریم صفدر’ خوآجہ سعد رفیق’ احسن اقبال’ جاوید لطیف’ پرویز رشید’ خوآجہ آصف’ مولانا فضل الرحمان’ شاہ زیب خانزادہ اور حامد میر کے فوج متعلق بیانات ویسے بھی آج کل سماجی رابطوں پر بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ویسے بھی سوشل میڈیا پر شہباز گل کی گرفتاری کے بعد ایک طوفان برپا ہے۔ حکومتی انتقامی کارروائیوں کے باعث لوگوں میں بہت غصہ پایا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں