اسامہ کو چار اہلکاروں نے گولیاں ماریں، اسامہ ستی کیس کی جوڈیشل انکوائری مکمل

اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم اسامہ ستی کیس کی جوڈیشل انکوائری مکمل کرلی گئی ، رپورٹ میں پانچوں اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا ، ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش کردی گئی۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے قتل ہونے والے طالب علم اسامہ ستی کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں دل دہلا دینے والے حائق بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مقتول کا کسی ڈکیتی سے تعلق نہیں تھا۔
گاڑی روکنے کے باوجود اہلکاروں نے اسے 22 گولیاں مار کر قتل کر دیا۔بتایا گیا ہے کہ رپورٹ میں ملوث ملزمان کی مجرمانہ غفلت ثابت کرتے ہوئے انہیں انسانیت سے بھی عاری قرار دیا گیا۔
اسامہ کے قتل کو چار گھنٹے تک خاندان سے چھپایا گیا جب کہ موقع پر موجود افسران نے وقوعہ چھپانے اور اسے ڈکیتی بنانے کی کوشش کی۔جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقتول کو ریسکیو کرنے والی گاڑی کو غلط لوکیشن بتائی جاتی رہی۔

موقع پر موجود افسر نے جائے وقوعہ کی کوئی تصویر نہیں لی۔اسامہ ستی کیس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسامہ کا کسی ڈکیتی یا جرم سے کوئی واسطہ ثابت نہیں ہوا،ڈیوٹی افسر نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جب کہ اسامہ کو چار سے زائد اہلکاروں نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ گولیوں کے خول 72 گھنٹے بعد فرانزل کے لیے بھیجے گئے۔اسامہ کی گاڑی پر 22 گولیاں فائر کی گئیں۔
اسامہ کی لاش کو پولیس نے سڑک پررکھا جب کہ پولیس کنٹرول نے 1122 کو غلط ایڈریس بتایا۔قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے اسامہ ستی کے اہلخانہ کو انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروادی،وزیر اعظم عمران خان سے اسامہ ستی کے اہلخانہ نے ملاقات کی ، اس دوران وزیراعظم نے اسامہ ستی کے لیے فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کو تحقیقات سے متعلق تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی ، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ لواحقین کوانصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں