امن امان پر قابو پانے میں ناکام اشرف غنی حکومت کی پاکستان پر الزام تراشی

کابل : افغانستان میں امن وامان کی صورتحال پر قابوپانے میں ناکام غنی حکومت نے اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کی مبینہ موجودگی خطے میں موجود بحران کو جاری رکھے گی افغان وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے و قت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان کے دورے کے دوران پاکستان میں مقیم افغان طالبان کے ساتھ ملا بردار کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں.
ویڈیو میں ملا برادر نے انکشاف کیا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ان سے فون پر طویل گفتگو کی انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ نے اتنی لمبی بات شروع کردی کہ تنگ آکر انہوں نے 35منٹ بعد فون بند کردیا پشتو زبان میں صحافیوں سے کی گئی ان کی گفتگو کا یہ ٹکڑا وائرل ہوا اور امریکی انتظامیہ کے لیے جنگ ہنسائی کا باعث بنا اگرچہ ملا برادر کے اس بیان کی عالمی ذرائع ابلاغ پر کوریج نہیں ہونے دی گئی مگر سوشل میڈیا پر ان کا وہ حصہ جس میں انہوں نے تین بار اپنی بات کو دہرایا کہ ”صدر ٹرمپ نے نہیں بلکہ انہوں نے فون کاٹا“.
افغان وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ویڈیوز پاکستان میں تمام طالبان راہنماﺅں کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہیں جو مبینہ طور افغانستان کی قومی خود مختاری کی واضح خلاف ورزی ہے اور یہ افغانستان میں پائیدار امن کی کوششوں کی لیے ایک چیلنج ہو گا جبکہ پاکستان کی جانب سے طالبان راہنماﺅں کے دورہ پاکستان کو خفیہ نہیں رکھاگیا بلکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان کے دورے کی خبریں شائع ہوئی ہیں .
ملا بردار کی کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو یہ کلپ بھی پاکستان کے نجی چینل پر چلا جس سے ثابت ہوتا ہے یہ کوئی خفیہ دورہ نہیں تھا اس حوالے سے ”اردوپوائنٹ“کے مدیر اعلی میاں محمد ندیم نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ حامد کرزئی ہوں یا اشرف غنی ان کی حکومتوں کا دائرہ اختیار کابل کی سول لائنزتک محدود رہا ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حکمران خود نیٹویا بلیک واٹرزکے حفاظتی دستوں کے ساتھ اپنے محلات سے باہر نکلتے ہیں باقی افغانستان قبائلی سرداروں کے حوالے ہے تو ایسی صورتحال میں پاکستان پر الزام تراشی شرمناک ہے .
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین انتخابات میں انتہائی کردار اداکرتے ہیں امریکااور اس کے نیٹو اتحادی افغان طالبان کو سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرچکا ہے ایسی صورتحال میں قطرمیں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کو بھی حق حاصل ہوگیا ہے کہ وہ 30لاکھ کے قریب افغان مہاجرین سے ملیں ان کے سامنے اپنا سیاسی منشور پیش کریں . میاں محمد ندیم نے کہا کہ اشرف غنی حکومت خوف کا شکار ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی ریفرنڈم یا انتخابات کی صورت میں انہیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جو شاید مختلف ملکوں کی شہریت رکھنے والے افغان حکمرانوں کے لیے قابل قبول نہیں انہوں نے کہا کہ وہ کئی بار دہراچکے ہیں کہ شمالی اتحاد اور افغان نیشنل آرمی کی اعلی قیادت طالبان سے مل کر افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرچکے ہیں .
انہوں نے کہا کہ عالمی اور علاقائی طاقتیں افغان عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں وہ کئی دہائیوں سے قربانیاں دیتے آرہے ہیںہم مہذب دنیا کی بات کرتے ہیں 1979سے بدامنی کے شکار افغان عوام کو آج41سال کے بعد بھی پر امن سے رہنے کا حق دیا جارہا ہے اور نہ ہی انہیں حق دیا جارہا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے حکمران چنیں انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے عالمی اور علاقائی طاقتیں افغان عوام پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی بجائے افغان عوام کو اپنے فیصلے کرنے دیں .
مدیراعلی ”اردوپوائنٹ“نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے بغیر خطے خصوصا پاکستان کی ترقی ممکن نہیں پاکستان اگر یورپ تک زمینی راستوں سے رسائی چاہتا ہے تو وہ افغانستان سے ہوکر گزرتے ہیں انہوں نے کہا کہ چین اور پاکستان سی پیک منصوبے میں افغانستان کو شامل کرکے نہ صرف افغان عوام کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ خطے میں طویل عرصے سے جاری اس کشیدگی کو ختم کیا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ متقبل قریب میں ایران بھی سی پیک کا حصہ بننے جارہا ہے اور پاکستان حکام کی جانب سے پاکستان استنبول ٹرین روٹ کی بحالی خوش آئند اقدام ہے اسی طرح روس‘چین اور پاکستان مل کر افغانستان میں موٹرویزاور ریلولے کا ایک بڑا نیٹ ورک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان میں امن کا قیام ہو.
انہوں نے انکشاف کیا کہ روس جلد سے جلد گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے اور پاکستان کے ساتھ روسی حکام کے معاملات حتمی مراحل میں ہیں اس میں صرف افغانستان رکاوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ ماسکو شمالی اتحاد اور افغان طالبان کو قومی حکومت بنانے پر آمادہ کررکھا رہا ہے اس سلسلہ میں فریقین کے درمیان اصولی طور پر معاملات طے پاچکے ہیں اور ممکنہ طور پر 2021میں قبائلی روایات کے مطابق دونوں فریق لویہ جرگہ منعقد کرکے غنی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کردیں انہوں نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ بھی اس میں انہتائی اہم کردار ادا کررہے ہیں .
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم اپنے لوگوں سے ملا عبدالغنی بردار کی ملاقات کوئی غیر معولی بات نہیں ہے پاکستان میں اس وقت تقریباً 22 لاکھ افغان پناہ گزین مقیم ہیں جن میں سے بعض علیل افغان پناہ گزینوں کی عیادت کرنا اور انہیں اپنے وطن کی صورت حال کے بارے میں آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.
اگرچہ افغان حکومت قبل ازیں یہ کہہ چکی ہے کہ افغان طالبان کے وفد کا دورہ پاکستان اور پاکستانی حکام سے ہونے والی ملاقاتیں افغان امن عمل کے لیے مفید ہوں گی، لیکن افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں طالبان وفد کے دورہ پاکستان سے افغان حکومت کی جو توقعات تھیں وہ شاید پوری نہیں ہوئیں اور اسی لیے افغان حکومت نے ملا عبدالغنی کی پاکستان میں بعض طالبان سے ہونے والی ملاقاتوں پر اعتراض کیا ہے افغانستان کی اشرف غنی حکومت توقع کرتی ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو جنگ بندی کے لیے آمادہ کریں مگر پاکستان اس سلسلہ میں واضح اور دوٹوک موقف دنیا کے سامنے رکھ چکا ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں چاہتا جبکہ طالبان کے ساتھ امریکا اور افغان حکومت کے درمیان مذکرات میں اسلام آباد نے فریقین کی درخواست پر سہولت کار کے فرائض انجام دیئے تھے .
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر افغان حکومت طالبان نے پاکستانی حکام کے علاوہ ہونے والی ملاقاتوں پر اعتراض کیا ہے، تو یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ شاید اب بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے ان کا کہنا ہے کہ اس سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے اگر افغان تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے تو بات چیت اور ر ابطے ضروری ہیں امریکہ، افغان حکومت اور بعض دیگر ممالک بھی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ پاکستان، طالبان سے تشدد میں کمی اور جنگ بندی کا کہے. ایک طرف فریقین چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار جاری رکھے تو دوسری جانب دوحہ سیاسی دفتر کی طالبان قیادت کے پاکستان کے دوروں پر اعتراض بھی کرتے ہیں جو ناقابل فہم ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں