گوادر میں جیوز کی ماہانہ ادبی دیوان

رپورٹ سلیمان ہاشم

گوادر ایجوکیشنل اینڈ انوائرمٹل ویلفیئر سوسائٹی (جیوز گوادر) کے زیر اہتمام ماہانہ ادبی مجلس زیر صدارت ماسٹر رمضان جامی کے منعقد ہوا
جیوز کے مہمان خاص ایک کتاب کے مصنف اور مشہور افسانہ نگار رفیق زائد نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں گوادر کے نوجوانوں کے لیے ان کی مصروفیات کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہم اکثر گوار کلب جایا کرتے تھے، جہاں ہم ان ڈور گیمز جن میں ٹیبل ٹینس، کریم بورڈ اور دیگرکھیلوں کے ساتھ ساتھ کلب کے لائبریری سے اخبارات اور میگزین اور دیگر کتب جس میں تاریخ اور ادبی کتابوں سے استفادہ حاصل کرسکتے تھے۔ یہ جگہ جیسے ایک پر سکون جگہ تھی ۔
کبھی کبھار گوادر کے ویسٹ بے کے ساحل کے کنارے فٹبال کھیلتے تھے لیکن جب بوریت محسوس ہوتی تو دوبارہ کلب میں سکون و راحت محسوس ہوتا تھا۔


وہاں اس زمانے میں بڑے عمر کے لوگ تاش کے باون پتوں سے کھیلنے آتےتھے۔ یعنی نوجوان اور عمر رسیدہ افراد کے لئے ایک خوشی عافیت کا مقام تھا اب یہ کلب ایک سوشل کمیونٹی سینٹر اور اسکول 🏫 بن چکا ہے۔ اور اس طرح وہ تمام ان ڈور گیمز اور پتوں سے کھیلنے کا رسم بھی ختم ہو چکا ہے۔ اب صرف لائبریری ہی بچی ہے اور اس کو ایک 🏫 اسکول کا درجہ مل چکا ہے۔ اب یہ آر سی ڈی سی گوادر کے نام پر ایک اسکول کی عمارت بن گئی ہے۔
اس دوران جیوز نے مختصر عشروں میں وہ مقام حاصل کی ہے ایک بہترین لائبریری کا قیام جہاں نوجوان بہتر انداز سے اپنی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے۔ اس کے علاؤہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ادبی مجلس کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں نوجوانوں کو ادبی مجلس میں جیوز کے کار مستر کے بی فراق نے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کی ہے جس سے نوجوان اس سلسلے میں ادبی دیوان میں اردو اور بلوچی شاعری اور بہترین افسانے، اور بہترین نثر نگاری میں اپنی کارکردگی کا بہتر مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے جیوز کے منتظمین میں کے بی فراق، عارف نور اور درا خان بلوچ کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ یہ سب قابل تحسین ہیں۔ان کی دن رات محنت و جانفشانی کے بدولت آج دور دور سے نوجوان ایسے ادبی مجلس میں حصہ لینے آجاتے ہیں۔ یہی جیوز کی مستقل انمول خصوصیت ہے۔ میں ایک بنکر ہوں لیکن مجھے ادب سے عشق کی تک جنون ہے۔ میں اپنے آپ کو اب ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم تصور کرتا ہوں۔ میری رائے ہے کہ ہمیشہ اس پروگرام میں شامل شعرا اور ادبا کو دیگر شرکاء سے متعارف کرایا جائے۔

اس ادبی دیوان کے صدر مجلس ماسٹر رمضان جامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جن ادیب اور شعراء نے جو نثر اور شعر پیش کئے وہ انتہائی اہم اور خوبصورت انداز اور بہترین اسلوب میں تھے۔ لیکن نثر نگاری میں لکھنے والوں کو خصوصاً ان باتوں میں احتیاط کی سخت ضرورت ہے کہ اس میں فحش الفاظ سے اجتناب کریں۔ کیونکہ ایسے مجلس میں ہمارے بزرگ شخصیات بھی شریک محفل ہوتے ہیں۔ انہوں نے رفیق زاہد کے افسانے کی تعریف کی اور کہا کہ اسی طرح چندن ساچ کے افسانے کو بھی بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ادیب نثر نگار اور شعراء کافی پیدا ہوئے ہمیں مزید قارین کی ضرورت ہے۔ جیوز کا ایک نصب العین ہے ہمارے ماہانہ ادبی دیوان میں شرکاء کم ہوں کہ زیادہ ہمیں اس سے سروکار نہیں ہم مستقل مزاجی سے اپنے پروگرام پر کار بند ہیں۔
انہوں نے آخر میں مہمان خصوصی اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

اس سے قبل نثر نگاری میں رفیق زائد نے آپنا افسانہ ” لذت” اردو زبان میں پیش کی اور اسی طرح مشہور و معروف ادیب و لکھاری چندن ساچ نے اپنا ایک ازمانک بلوچی زبان میں پیش کی۔
شعراء میں زائد لعل،محمد علی ہمدم، عبد اللہ خیال، رزاق تحسین، شاہ میر دیدگ، سراج صابر، خالد ہما، رفیق راہی، نے اپنے اپنے اشعار اردو اور بلوچی زبان میں پیش کئیے۔
شرکاء نے ان افسانہ نگاروں اور شعراء کو دل کھول کر داد دی۔ واضع رہے کہ آج کے نثر نگاروں کی کئی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں
1.زند کہ بیت،لبزانک بیت۔۔چندن ساچ
2.آزمان کارستے ءِ لوگ اِنت۔۔.چندن ساچ
1.کسہانی چادر..رفیق زاہد
اس ادبی دیوان کے نظامت کے فرائض رزاق تحسین نے ادا کئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں