دشت کور میں ڈیم کی ضرورت حکومت بلوچستان اس جانب توجہ دیں

تحریر: سلیمان ہاشم

پچاس سال میں چین نے 22 ہزار ڈیم بنائے‘ امریکہ نے ساڑھے چھ ہزار ڈیم بنائے اور بھارت نے ساڑھے چار ہزار ڈیم بنائے ہیں اور اگر ایک ڈیم سے اتنا مسئلہ ہوتا تو امریکہ سپر پاور نہ ہوتا‘ چین شکست و ریخت سے دوچار ہوجاتا۔ باقی دنیا ڈیم بناکر ترقی کر رہی ہے لیکن ہمارے ملک اور خصوصاُُ بلوچستان کیوں بنجر و صحرا کا منظر پیش کررہا ہے۔ کیوں کہ پانی زندگی ہے۔
بلوچستان میں لاکھوں ملین ایکڑ فٹ پانی کو سمندر میں ضائع کیا جا رہاہے لہٰذا اس کو ہمیں استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کو بچانا ہے
جب پانی وافر مقدار میں میں ذخیرہ ہوگا تو دشت کے صحرا بھی گل و گلزار ہونگے جس سے بے روزگاری میں یقینی طور پر کمی واقع ہوگی اور عوام کی معیار زندگی بلند ہوگا۔ اسی طرح زراعت اور کاشتکاری سے کسان خوشحال ہونگے اور ڈیم کے باعث وافر پانی کی دستیابی سے دشت کی لاکھوں ایکڑ غیر آبادزمین بھی آباد ہوجائیں گے اور زرعی وصنعتی انقلاب برپا ہوگا۔ ایسے چھوٹے ڈیم کی منصوبہ بندی ہمارے دیہات ہمارے گاوں اور صوبہ بلوچستان کی ترقی‘ خوشحالی اور غریب عوام کی معیشت میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ دشت کے عوام کے اس جائز مطالبے پرحکومت بلوچستان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اس منصوبے کو اپنے حالیہ بجٹ میں خصوصی طور پر شامل کرنا ہوگا۔
اب کچھ دریائے دشت ندی کا ذکر ہو جائے کہ ان کو کیوں ایک چھوٹے ڈیم کی ضرورت ہے دریائے دشت کا پانی نہنگ کور، کیچ کور، شیزینیک کور، تیراندسک کور، گوارگ کور، ڈھڈہ کور اور بکری کور جیسے ندیوں اور دریاوں سے بارشوں کے دنوں وافر مقدارمیں پانی بہتا ہے مگر میرانی ڈیم بننے کے بعد اب کیچ اور نہنگ کا پانی زیادہ تر میرانی ڈیم میں سب سے پہلےسیراب کرتے ہیں، مگر جب بارشیں بہت زیادہ ہوں تو میرانی ڈیم اسپلوے سے ہر سال کئی بار کافی مقدار میں پانی کا اخراج ہوتا ہے اور یہ پانی پھر دشت ندی سے گزر کر کنٹانی ہور گوادر کے تحصل جیوانی سے ہوتے ہوئے سمندر میں جا کر ضائع ہوجاتا ہے۔
دشت ندی میں پہاڑی اور میدانی دونوں علاقے ہیں اور آبادی والے علاقے زیادہ تر میدانی ہیں جو کہ ندی کے دونوں اطراف میں موجود ہیں مگر اس ندی کے اطراف پہاڑی علاقے بھی موجود ہیں۔
اس سلسلے میں کلدان اور مجھو کے سیاسی و سماجی شخصیت واجہ عبدالغفور ہوت،ضلع کونسل کے سابق ضلعی نائب چیرمین ہوت نعمت اللہ اور اس علاقے کے ایک نوجوان ہوت بشیر نے کہا کہ اگر کلدان دیہات اور موجھو کے علاقےمیں دشت ندی پر ایک بڑا ڈیم بنایا جائے۔ تو اس کا پانی پتان کے یہات اور گاوں تک ذخیرہ ہوسکتا ہے جس کا فاصلہ کلدان گبد سے 45 سے 50 کلومیٹر فاصلے پر ہے اور اگر بند کی چوڑائی کو زیادہ کیا جائے تو یہ پتان سے بھی بہت آگے تک پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔ اگر ان علاقوں میں ڈیم بن گئی تو
جیوانی شہر سے دشت ندی کا فاصلہ صرف 35 کلومیٹر ہے۔ اور جیوانی میں پانی کی کبھی بھی کمی اور شکایت نہیں رہے گی۔
اگر کلدان اور مجھو کے قریب بند باندھا گیا تو اس سے 27 گاؤں اور چھوٹے بڑے دیہات سیرآب ہوسکتے ہیں جو کہ اس پانی کے ذخیرے سے اچھی کاشت کاری اور پانی کی تمام ضروریات کو پورا کرسکیں گے ۔ ان گاوں اور علاقوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں: پتان، ڈلسر، مٹینگ، داردان، نظرت بازار، ولید بازار، سنٹسر، کلیرو، رحمت بازار، میران بازار، پمپ بازار، بل، سماتی، چوڑ، سیسدی، ڈومب، کلاتو، میرجت، گبد، غلام بازار، چارشمبے بازار، میرآباد، کلدان، حمل بازار، ملا فقیر محمد بازار، کلّر بازار اور صادق بازار شامل ہیں۔
ان تمام علاقوں کی ایک بڑی آبادی پانی کے بحران کا کبھی بھی سامنا نہیں کرے گا۔
اگر ایک مضبوط ڈیم بنائی گئی تو اس سے سمندر کا کھارا پانی آگے نہیں آ سکے گا جس سے کافی قابل کاشت زمینیں بنجر اور سیم زدہ نہیں ہونگے۔
ندی نالوں کا پانی بھی قابل کاشت ہو سکے گا۔
اس بند کے باندھنے پر بہت سے صوبائی حکومتوں نے وعدے وعید ضرور کیئے بشمول نگران صوبائی وزیر آبپاشی کے دور میں پی ایچ ای کے نگران وزیر نوید کلمتی اور مختلف ادوار میں ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کے آفسران نے بھی دورے اور ان کے انجنئیروں نےان مقامات پر بند بنانے کے سروے اور پیزبلٹی رپورٹ بھی حکومت کو پیش کئیے اور یقین دہانی کرائی گئی مگر بعد میں خاموشی چھا گئی۔

حکومتوں میں سابق وزیر اعلی مرحوم جام یوسف سے لے کر ان کے فرزند جام کمال تک تمام صوبائی حکومتوں سے اس بارے میں بارہا درخواست کی گئی تھی اور انہوں نے بھی یقین دہانیاں اور وعدے بھی کیئے مگر عملدر آمد کی نوبد نہ آئی۔
سابق وزیر اعلی جام یوسف کے دور حکومت میں ان علاقوں کے عوام نے اپنے پانی کے بحران کے خاتمے کے لئے جدوجہد شروع کی تھیَ اور پھر سابق وزیر اعلی رئیسانی،سابق وزیر اعلی ڈاکٹر مالک بلوچ اور وزیر اعلی ثناءاللہ زہری، پھر اس کے بعد نگران صوبائی حکومت اور پھر جام کمال کی حکومت سب نے اس حوالے سے یقین دہانیاں ضرور کرائی ہیں مگر اب تک ان تمام حکمرانوں کے دور میں کچھ بھی عملی کام نظر نہیں آیا ۔ سابق وزیراعلی ڈاکٹر مالک اور سابق نگران صوبائی وزیر نوید کلمتی نے باقاعدہ وزارت کے دوران اس جگہ کا بذات خود دورہ بھی کیا مگر اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ ان کے علاوہ بہت دفعہ ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کے آفسران نے بھی دورے کئیے اور یقین دہانیاں کرائیں اور سروے رپورٹ بھی بنائے مگر عملی کام کچھ نظر نہیں آیا۔
اس بند کی تعمیر سے کوئی بھی علاقہ زیر آب آنے اور کسی علاقے کو کوئی سیلابی صورت حال کے کوئی امکان نہیں ہیں۔
کیونکہ ندی کی چوڑائی کافی زیادہ ہے اس لئے یہ ندی کے اندر ہی ذخیرہ ہوجاتا ہے کہیں بھی لبریز ہوکر کسی علاقے کو زیرآب نہیں لا سکتا۔
کبھی دشت میں پانی کا بحران آتا ہے تو کلاتو گبد اور کلدان سب سے زیادہ آبادی والے علاقے ہیں اور یہ زیادہ متاثر ہونگے۔
اور جب دشت ندی میں بند بہہ جاتا ہے تو پھر سمندر کا پانی سماتی کے دیہات تک پہنچتا ہے۔
ان علاقوں میں پانی کا واحد ذریعہ ایک بڑا بورنگ ہے لیکن یہ بھی مہینے میں صرف ایک بار چلایا جاتا ہے اور اکثر علاقہ مکین ندی میں بڑے بڑےکھڈے کھود کر جس کو بلوچی میں کانیگ کہا جاتا ہے اس سے پانی حاصل کرتے ہیں اور اسی سے اپنے مال مویشیوں کو بھی پانی پلاتے ہیں جو کہ انتہائی کم مقدار میں ہوتا ہے اور چند دنوں بعد پھر ایک کانیگ کھودنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر سمندر کا پانی اوپر آجائے تو یہ بھی ناکارہ ہوجاتے ہیں۔
گبد کلاتو کے عوام کی نظریں اب بھی بلوچستان سرکار پر لگی ہیں کہ ان کےدل کے کسی گوشے میں رحم آجائے اور کسی دن حکمران اس اہم مسئلے پرتوجہ دیں۔ اور اس علاقے کے ندی نالوں اور دریائوں کے پانی کو سمندر برد ہونے سے بچا کر اس علاقے کےلوگوں کو خوشحالی کی جانب گامزن کریں اور پانی کےذخیرے سے اس علاقے کے کسان خوشحال و سر سبز و شاداب دشت کو دیکھ سکیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں