صحافی آصف سلیم مٹھا — لندن سے
پاکستان کے آئینی اور عسکری ڈھانچے میں ایک مرتبہ پھر غیر معمولی صورتِ حال نے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ آرمی چیف کے منصب سے متعلق اختیارات، مدتِ ملازمت اور نئے قائم کردہ عہدے چیف آف ڈیفینس فورسز (CDF) کی تقرری میں نمایاں تاخیر نے ایک مرتبہ پھر ریاستی شفافیت پر انگلیاں اٹھا دی ہیں
آرمی چیف کا منصب… کیوں چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے؟
ملکی تاریخ اس حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ پاکستان میں آرمی چیف کا عہدہ جتنا طاقتور ہے، اتنا ہی ’ناقابلِ ترک‘ بھی محسوس ہوتا ہے۔
جنرل وحید کاکڑ، جہانگیر کرامت، اسلم بیگ اور جنرل راحیل شریف وہ نام ہیں جنہوں نے مدت پوری ہونے پر عہدہ چھوڑا اور گھر چلے گئے۔
تاہم دوسری طرف جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل قمر جاوید باجوہ اور اب فیلڈ مارشل عاصم منیر کے گرد مدتِ ملازمت اور توسیع کے مباحث مسلسل گھومتے رہے ہیں، جس نے عوامی ذہنوں میں یہ سوال جمادیا ہے:
کیا اس عہدے میں کوئی ایسا راز یا قوت پوشیدہ ہے کہ جانے کا عمل خود بخود مشکل ہو جاتا ہے؟
یا عمران خان کی 10 اپریل 2022 کے بعد انکی جماعت کے ساتھ کیا گیا نارواسلوک و ظلم آڑے آرہا ہے ؟ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا اژدہا سب کو ہڑپ کر چکا ہے ؟خوفزدہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ۔بلاول ۔نواز شریف ۔شہباز شریف و مریم کچھ اور ہی سوچ رکھتے ہیں ؟
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ عہدہ ختم کرنے سے آئینی خلا پیدا ہوگیا ہے ؟
27 نومبر کو جنرل ساحر شمشاد مرزا اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہوئے۔
زور و شور سے آئینی ترمیم کے بعد توقع تھی کہ اسی روز یا اگلے دن چیف آف ڈیفینس فورسز کے نئے عہدے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔
لیکن 29 تک کوئی نوٹیفکیشن سامنے نہ آیا۔
اس غیر معمولی تاخیر نے آئینی و قانونی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔پھر بھی یہ بات کہے بغیر نہی رہ سکتا کہ موجودہ گروہ نے ہر کام غیر آئینی اور فسطائی انداز میں سرانجام دیا ہے جسکی سب سے بڑی مثال عام انتخابات میں تاخیر تھی
قانونی ماہرین کے مطابق:
سی ڈی ایف کا عہدہ آئینی ترمیم کے ذریعے JCSC کی جگہ لے چکا ہے۔
آرمی چیف کو نیا اضافی منصب دینے کا نوٹیفکیشن ناگزیر تھا۔
تاخیر آئینی ابہام پیدا کررہی ہے
کچھ ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ 29 نومبر کے بعد آرمی چیف کی مدتِ ملازمت نوٹیفکیشن کے بغیر “ختم” تصور ہو سکتی ہے۔
یہ بات حکومتی مؤقف سے بہت ہی مختلف ہے۔
مدت ملازمت 5 سال—کیا یہ ترمیم سب کچھ حل کر دیتی ہے؟ 2025 کی ترمیم آپریشن “بنیان” کے بعد تمام عسکری چیفس کی مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم ایسے سمجھی جائے گی جیسے “ہمیشہ سے قانون کا حصہ” ہو۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر:
سی ڈی ایف کا نوٹیفکیشن کیوں نہیں آیا؟
اگر سب آئینی طور پر واضح تھا تو تاخیر کس بات کی تھی؟
یہ تضاد اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
حکومتی وضاحت—یا حکومتی ابہام؟
حکومت کی جانب سے صرف ایک ہی جواب سامنے آیا
وزیر دفاع خواجہ آصف کا مختصر بیان کہ “عمل شروع ہو چکا ہے۔”
لیکن اس بیان نے سوال کم اور تحفظات زیادہ پیدا کیے ہیں۔
کیونکہ
آئینی منصب تاخیر کا متحمل نہیں ہوتا
واضح ٹائم لائن ضروری ہوتی ہے
اہم فیصلے خفیہ طریقے سے نہیں بلکہ نوٹیفکیشن کے ذریعے ہوتے ہیں
یہ تاخیر غیر معمولی ہے اور اس کا اثر پورے عسکری نظم پر پڑ سکتا ہے۔
طاقت کے مراکز اور آئینی حدود کا سوال
پاکستان میں سب سے بڑا سوال یہی ہے
کیا اہم ترین عہدے ابھی بھی قانون سے زیادہ ’’روایات‘‘ اور ’’پسِ پردہ فیصلوں‘‘ کے تابع ہیں؟
جب ایک آئینی عہدے کا نوٹیفکیشن بھی مقررہ وقت پر جاری نہ ہو سکے
جب توسیع، مدت اور عہدوں کے مستقبل پر غیر علانیہ بحثیں جاری رہیں—
تو ظاہر ہے کہ شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
ریاست کے 24 کروڑ شہریوں کو حق ہے کہ وہ پوچھیں کہ
آرمی چیف کا عہدہ آخر کس کے اختیار میں ہے؟
فیصلے آئین کرتا ہے یا بااثر حلقے؟
اور اگر سب آئینی تھا تو نوٹیفکیشن کیوں رکا؟
یہ سوالات معمولی نہیں—ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
آخر میں… وہی بنیادی سوال زندہ ہے اور
پاکستانی عوام کے ذہن میں آج بھی وہی سوال گونج رہا ہے:
کچھ نہ کچھ تو ہے… جس کی پردہ داری ہے۔
اگر نہیں
تو حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور متعلقہ ادارے شفافیت دکھائیں۔
اور اگر سب ایک پیج پر ہیں
تو کم از کم قوم کو اندھیرے میں نہ رکھا جائے۔
کیونکہ ریاستیں طاقت سے نہیں، اعتماد سے چلتی ہیں۔



