سانحہ میانوالی،ہر آنکھ اشکبار

زندگی کے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جب انسان انگ انگ خوش ہوجاتا ہے اور خوشی میں پھولے نہیں سماتا لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو کہ ذہنوں میں صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں اور ان کے نشان دل سے کبھی نہیں مٹتے انسان چاہ کر بھی ایسے واقعات کو بھلا نہیں سکتا اور یاد کرکے دل افسردہ ہوجاتا ہے،خوشی یا پریشانی یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ اللہ پاک کی طرف سے سب کچھ جو لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے،انسان زندگی میں رہ کر سوچتا کچھ ہے اور پھر ہو کچھ اور جاتا ہے

،کچھ دن قبل میانوالی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے انسانیت کے سر شرم سے جھک گئے ہر طرف پریشانی کا سماں تھا،ہر بندہ یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ کیا اب بھی ہم اشرف المخلوقات ہیں کیا ہمارے کام مسلمان ہونے کے ناطے ٹھیک ہیں،کیا ہم زمانہ جاہلیت میں اب بھی رہ رہے ہیں ہائے ہائے تو اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو کیونکہ ہم بہت ظالم بن چکے ہیں شریعت محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر نہیں چل رہے اسی لیے تو ہم ہر طرف شرمندہ اور پریشان دیکھائی دیتے ہیں،سانحہ میانوانی کے بعد کیا ہم مسلمان کہلا سکتے ہیں،حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں انسانیت کی قدر بالکل نہیں تھی بلکہ انسانیت کی ہر طرح سے تذلیل ہوتی تھی،اولاد کو جائیداد سے حصہ نہ دینا،بچیاں پیدا ہوتے ہی ان کو زندہ درگور کرنا،ماں باپ کا ادب و احترام بالکل نہ تھا حتی کہ قصہ مختصر زندگی گزارنے کا کوئی قاعدہ و قانون نہ تھا،سانحہ میانوالی میں ایک باپ کی ہسپتال میں آپریشن سے بچی پیدا ہوئی سات دن گزرنے کے بعد اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہماری پہلی اولاد ہوئی ہے اور وہ بھی بیٹی لیکن مجھے بیٹی کی بجائے بیٹا چاہی

ے اس پر ظالم باپ نے اپنی معصوم کلی کو موقع پا۔کر پسٹل کے فائر کھول دیے یہ افسوس ناک خبر سنتے ہی عالم اسلام کے سر شرم سے جھک سے ہر آنکھ نم تھی،ظالم باپ کو گرفتار کرلیا گیا،اس واقعہ نے مجھ سمیت سب کو ہلا کر رکھ دیا اور رات بھر جاگتے گزر گئی کہ کیسے جابر باپ نے اپنی لخت جگر،معصوم اور رحمت کو گولیوں سے چھلنی کیا ہوگا کیا اس کے دل میں ذرا برابر بھی رحم نہ آیا،میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور سر شرم سے جھک گیا ہے،ہائے افسوس سد افسوس اتنا بڑا ظلم،بچیاں ماں کی بجائے زیادہ محبت اپنے باپ سے کرتی ہیں باپ جب گھر آتا ہے تو بیٹی ہی اس کو کھانا وغیرہ اور اس کے آرام کا خیال رکھتی ہیں بلکہ کپڑے وغیرہ بھی تیار کرکے رکھتی ہیں،دین اسلام کے مطابق بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں کیا اس ظالم باپ پر مقتول معصوم بیٹی بروز قیامت زحمت نہیں بنے گی،جب جابر والد نے فائر کھولا ہوگا تو کیا اس کے دل میں ذرا برابر بھی رحم نہ آیا کہ میں کس کو قتل کررہا ہوں جو میرے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے ایسے واقعات کو سننے سے پہلے دل کرتا ہے موت آجائے یہ تو قیامت سے بھی پہلے قیامت آگئی ہے،

کچھ ماہ قبل کبیروالا کے علاقے باگڑ سرگانہ میں ایک باپ اپنی جواں بیٹی کے ساتھ زنا حرام کاری کرتا ہے لڑکی کی ہمت پر مقامی تھانہ سرائے سدھو میں مقدمہ درج کیا گیا،وہ بیٹی جس نے اپنے ماں باپ بہن بھائی کے ساتھ جینا تھا اور زندگی کی خوشیاں حاصل کرنی تھیں کہیں تو وہ معصوم حالت میں قتل ہورہی ہے کہیں باپ سے زیادتی کا نشانہ بن رہی ہے،جائیداد سے حصہ تو تقریبا کہیں سے نہیں مل رہا اور متعدد جگہوں پر درندے اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں۔دین اسلام نے عورت کو مکمل حقوق دیے ہیں اور اس کو زندگی میں بہت زیادہ اہمیت دی ہے اس کے علاوہ حکومت نے حقوق نسواں بل پاس کرکے بھی عورت کو بہت زیادہ حق دیا ہے،کہتے ہیں ہر کامیاب بندے کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہے اور ہر ناکام بندے کے پیچھے بھی عورت کا ہاتھ ہے چاہے وہ ماں ہو،بیٹی ہو،بہن ہو یا کوئی اور ہو۔ہمارا دین اسلام میں اگر ہم اس کا بغور مطالعہ کریں تو عورت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے

اگر ہم دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی کو گزاریں تو یقینا سانحہ میانوالی جیسے واقعات کبھی بھی رونما نہ ہوسکیں جب سے ہم دین اسلام سے دور ہوئے ہیں ہم بے راہ روی کا شکار ہوئے ہیں،حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک مسلمان کا قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے معصوم بچی کا قتل کرنا تو بہت بڑا ظلم ہے،مقتول معصوم سات دن کی بچی کیا آخر کیا قصور تھا جو اس کو قتل کیا گیا جب بروز قیامت اپنے والدین سے ملاقات ہوگی تو اس کے والدین کیا جواب دیں گے یقینا باپ اپنی بیٹی کے سامنے شرمندگی سے پانی پانی ہوجائے گا،بچی اپنے باپ سے کہے گی میرا کیا قصور تھا جو مجھ کو قتل کیا تھا آپ کے پاس میرے لیے کچھ نہ تھا،جہیز نہ تھا دینے کو،کپڑے نہیں تھے میرے لیے،گھر میں کھانا نہیں تھا جو مجھے بھوک کے وقت دیا جانا تھا،چلو مجھے کھلونے نہ لے دیتے مجھے قتل تو نہ کرتے،میرے ارمان پورے نہ کرتے مجھے قتل تو نہ کرتے،دل تو کرتا ہے کہ ایسے واقعات پیش آنے سے پہلے ہی باپ کو نکیل ڈال دی جاتی تاکہ وہ ایسی گھٹیا حرکت نہ کرتا،بحرحال ہمیں چاہیے کہ ہم دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی کو گزاریں اور خواتین کو ان کے حقوق اسلام کی رو سے دیں اسی میں ہماری کامیابی ہے،آیات مبارکہ وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ(8)بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْۚ(9)ترجمہ:اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا،زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر دی گئی،بیٹیاں تو رحمت خاص ہوتی ہیں.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عین اس وقت جب کہ لڑکی کو گھر کے لیے نحوست اور زحمت سمجھا جاتا تھا،اپنی چاروں بیٹیوں سیدہ زینب سیدہ ام کلثوم سیدہ رقیہ اور سیدہ فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیھن کا استقبال کھلی بانہوں کیساتھ کیا اور خاص طور پر اپنی لاڈلی اور پیاری بیٹی سیدہ طیبہ طاہرہ فاطمہ زھرہ سلام اللہ علیہا کا کھڑے ہو کر استقبال کر کے اور اپنی جگہ پر بٹھا کر اپنی امت کو یہ پیغام دیا کہ بیٹی اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی رحمت ہے جو خود رحمت عالم بن کر آئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں