کسی بھی اداروں کے ملازمین کو سرکار کی طرف سے مکمل بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور ان کو ماہانہ تنخواہیں بھی بھاری دی جاتی ہیں تاکہ ادارے بہتر انداز میں کام کر سکیں اور اپنا ہدف بھی پورا کرکے کوئی شکایت کا موقع نہ مل سکے،لیکن جہاں پر متعدد ادارے ایسے ہیں جن کے ملازمین یا تو کھل کر کرپشن کر رہے ہیں یا گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کررہے یا اپنے ادارے کے متعلقہ کاموں میں رشوت وصول کر رہے ہیں اگر ان سے پوچھا جائے کہ یہ کام غیر قانونی ہے اس کام کی روک تھام آپ لوگوں نے کرنی تھی تو کہتے ہیں ہم رشوت اعلی افسران تک پہنچاتے ہیں اگر کوئی شخص ہماری شکایت بھی کر دے تو ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا،
سول ڈیفنس ایک ایسا ادارہ ہے جس کی ذمہ داری غیر قانونی منی پٹرول پمپ،تیل ایجنسیز،ڈبہ اسٹیشن،ایل پی جی گیس سلنڈر والی دکانیں،پمپوں کے پیمانے چیک کرنا وغیرہ ان کے ذمہ ہوتا ہے تاکہ کوئی غیر قانونی کام نہ ہوسکے لیکن یہاں پر نظام سارا الٹ چل رہا ہے ہر جگہ منی پٹرول پمپوں کی بھر مار ہے جہاں پر پیمانے بھی کم دیے جاتے ہیں اور عوام کو لوٹا جاتا ہے،سینکڑوں کے حساب سے تیل ایجنسیز موجود ہیں جہاں پر ایرانی پٹرول بھی دھڑلے سے فروخت کیا جاتا ہے،ایل پی جی گیس سلنڈرز کی غیر قانونی دکانیں تو جگہ جگہ کھلی ہوئی ہیں جہاں پر کسی قسم کا کوئی حفاظتی اقدامات نہیں ہوتے،گیس سلنڈر والی دکانوں کے مالکان گیس کے ریٹ بھی منہ مانگے وصول کرتے ہیں،ڈبہ اسٹیشن بھی کھلے ہوئے ہیں ان ڈبہ اسٹیشنوں پر چوری کا مال خریدا جاتا ہے،بغیر این او سی کے متعدد پٹرول پمپ چل رہے ہیں جن کی سرکار کی طرف سے کوئی منظوری نہیں لی گئی،کچھ سال قبل ماڑی سہو میں ایک تیل ایجنسی پر آگ بھی لگی تھی جس میں تین افراد جان کی بازی ہار گئے تھے،مذکورہ تمام غیر قانونی کاموں کی روک تھام سول ڈیفنس کے ملازمین نے کرنا ہوتی ہے لیکن سول ڈیفنس کے ملازمین ہر جگہ سے بھتہ وصول کرتے ہیں،فی ایجنسی ماہانہ دس سے پندرہ ہزار،غیر قانونی منی پٹرول پمپ سے پندرہ سے بیس ہزار،ایل پی جی گیس سلنڈر والی دکانوں سے ماہانہ پانچ سے چھ ہزار بغیر این او سی چلنے والے پٹرول پمپوں سے ماہانہ تیس سے چالیس ہزار اور فی ڈبہ اسٹیشن سے بھی تیس سے پچیس ہزار ماہانہ وصول کیا جاتا ہے یہ رشوت ماہانہ کروڑوں روپے کی بنتی ہے،سول ڈیفنس کے ملازمین مہینے کے آخر میں اپنے بااعتماد ملازمین کو مذکورہ غیر قانونی کام کرنے والوں کے پاس بھیج کر بھتہ وصول کرتے ہیں اور بعد میں کرپشن میں سے برابر کا حصہ افسران بالا تک بھی پہنچاتے ہیں،
سول ڈیفنس کے ملازمین کے اثاثے اگر چیک کیے جائیں تو یہ کروڑوں میں ہوں گے کیونکہ ان کا کام ڈیوٹی پر صرف رشوت اکٹھا کرنا ہوتا ہے،ماہانہ کارکردگی رپورٹ بوگس بنا کر اعلی افسران کو سب اچھے کی رپورٹ دیتے ہیں یوں ان کی کرپشن پر پردہ پڑا رہتا ہے،سول ڈیفنس کے ملازمین کے کالے کرتوت میڈیا میں تمام ثبوتوں کے ساتھ ہائی لائٹ بھی ہوئے ہیں لیکن کیونکہ اوپر تک حصہ جاتا ہے اس لیے کوئی ایکشن نہیں ہوتا،کبیروالا چونکہ ضلع خانیوال کی سب سے بڑی تحصیل ہے یہاں پر سول ڈیفنس کے ملازمین کھل کر کرپشن بھی کررہے ہیں اور غیر قانونی کام بھی کروا رہے ہیں یہاں پر ایک مضبوط مافیا ہے جس پر ہاتھ ڈالنا سول ڈیفنس کے ملازمین کے بس کا کام نہیں ہے،باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ دتہ دیہڑ جس کے پورے ضلع خانیوال خاص طور پر کبیروالا میں درجنوں کے حساب سے منی پٹرول پمپ چل رہے ہیں جہاں پر دھڑلے سے ایرانی پٹرول فروخت ہورہا ہے ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اس مافیا کے ہاتھوں افسران بالا تک کارروائی نہیں کرتے کیونکہ خانیوال کی ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت کا اللہ دتہ دیہڑ پر ہاتھ ہے جب بھی کوئی ملازم اس کے منی پٹرول پمپوں پر کارروائی کرتا ہے یا تو اس کا تبادلہ ہوجاتا ہے یا وہ دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی جرات نہیں کرتا،جب بھی سول ڈیفنس کا نیا ضلعی انچارج آتا ہے تو مقامی سول ڈیفنس کے ملازمین اپنی منتھلی کو قائم رکھنے کے لیے بوگس کارروائیاں کرواتے ہیں اور پھر جہاں سے بھتہ نہ ملے وہاں پر ضلعی افسر کا ریڈ کرواتے ہیں،سول ڈیفنس کے ضلعی انچارج متعدد ایسے بھی خانیوال میں آئے جو کہ میرٹ پسند تھے لیکن کچھ ہی دن بعد پرانے ملازمین کے ہاتھوں یرغمال ہوجاتے ہیں،اگر سول ڈیفنس کے افسران بالا کبیروالا کا خفیہ دورہ کریں تو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا،میری اس کالم کے توسط سے حکام بالا سے اپیل ہے کہ سول ڈیفنس کے کرپٹ ملازمین کے اثاثے چیک کیے جائیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آئندہ کوئی ملازم انسانی جانوں سے کھیلنے والے افراد کو چھوٹ نہ دے۔