کیا سعودی ولی عہد کے بھی امریکا میں داخلے پر پابندی ہے؟

واشنگٹن:امریکی محکمہ خارجہ نے یہ وضاخت دینے سے انکار کردیا ہے ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام ان 76 سعودی عہدے داروں کی فہرست میں شامل ہے جن پر صحافی جمال خشوگی قتل کے الزام میں امریکی ویزا پابندیاں عائد کی گئیں ہیں. بائیڈن انتظامیہ نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں سعودی عرب کے شہریوں کے خلاف سخت پابندیوں کا اعلان کیا اور سابق سعودی انٹیلیجنس اہلکار احمد العسیری کو بھی ان افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے.

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان 76 سعودی شہریوں میں وہ سعودی عہدے دار بھی شامل ہیں جو امریکہ میں رہائش پذیر سعودی شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششوں میں ملوث پائے گئے تھے تاہم محکمہ خارجہ کی جانب سے دی گئی پریس بریفنگ میں ترجمان نیڈ پرائس نے یہ واضح کرنے سے انکار کر دیا کہ آیا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے یا نہیں.

ولی عہد کا نام شامل کیے جانے سے متعلق سوالات کے جواب میں ترجمان نے کہاکہ ہم اس فہرست میں شامل 76 افراد کی شناخت کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی مستقبل میں اس فہرست میں شامل کیے جانے والے افراد کے متعلق معلومات دے سکیں گے.
وائٹ ہاﺅس کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ محمد بن سلمان کے حوالے سے براہ راست کوئی کارروائی کرکے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ صحافی جمال خشوگی کے قتل جیسے واقعات مستقبل میں نہ ہوں اور دونوں ممالک مل کر کام کریں.

ان کے مطابق سعودی شہزادے کا امریکہ آنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ان اقدامات کا مقصد بظاہر اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کی تکمیل ہے یاد رہے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے عرب اتحادی اور سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتے آئے ہیں.

شاید یہی وجہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے بائیڈن کے بہت سارے فیصلے پچھلی حکومت کے موقف کے بالکل مخالف ہیں تاہم بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربرطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اس نقطہ نظر کا مقصد مشرق وسطی میں کوئی بنیادی رشتہ توڑے بغیر سعودی عرب سے نئے سرے سے تعلقات کا آغاز ہے یمن کی جنگ اور سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ شہزادے کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہے حالانکہ امریکی انٹلیجنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی نڑاد امریکی صحافی جمال خشوگی کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی.

اس رپورٹ کے اجرا کے بعد وائٹ ہاﺅس نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے رہا ہے تاہم انٹیلیجنس رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سعودی ولی عہد پر واضح الفاظ میں سخت پابندیوں کے اطلاق کے حوالے سے کوئی اشارہ نہ دینے پر بائیڈن انتظامیہ پر سخت تنقید کی جا رہی ہے یاد رہے اس سے قبل خشوگی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے کہا تھا کہ شہزادے کو بلاتاخیر سزا دی جانی چاہیے ترکی سے تعلق رکھنے والی محقق خدیجہ چنگیز نے عالمی راہنماﺅں سے التجا کی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ولی عہد شہزادے سے دور کر لیں اور سعودی عرب پر سخت پابندیاں عائد کریں.

بائیڈن انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ضروری ہے کہ تمام عالمی رہنما اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا وہ (شہزادہ محمد بن سلمان) سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ میں سب سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر ولی عہد شہزادے کو سزا دینے کی مہم چلائیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں