فرانسیسی صدر کا مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک اور ثبوت سامنے آ گیا

فرانس : فرانس میں مسلمانوں پر پابندیاں اور نگرانی سخت کرنے کا قانون منظور کر لیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق فرانس کی قومی اسمبلی نے مذہبی انتہا پسندی کیخلاف نیابل منظور کرلیا، بل کا مقصد فرانس کی بنیادی اقدار آزادی اور مساوات کے اصولوں کو تقویت دینا اور جبری شادی کو روکنا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق فرانس کی قومی اسمبلی نے بل 151 کے مقابلے میں 347 ووٹوں سے منظور کرلیا، بل کو قانون بنانے کے لئے اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا جہاں اپوزیشن کو اکثریت ہونے کی وجہ سے بل کی منظوری میں حکومت کو مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔

بل میں پرتشدد کارروائیوں، مذہبی ایسوسی ایشنز کی سخت نگرانی اور مرکزی دھارے میں شامل اسکولوں کے بچوں کو اسکولوں سے باہر تعلیم دلانے کے عمل کی پابندی شامل ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق فرانس کی قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اس بل کا مقصد بظاہر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے مذہبی تنظیموں کی کڑی نگرانی، تشدد کے واقعات کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی، عام اسکولوں سے ہٹ کر اداروں میں بچوں کی تعلیم اور جبری شادی وغیرہ کی روک تھام کرنے میں مدد لی جائے گی تاہم قانون سازی میں ان اقدامات کو ’اسلام ازم‘ یا ’اسلامی علیحدگی پسندی‘ کے تدراک سے منسلک کیا گیا ہے۔

اس قانون سازی کے بعد خصوصا فرانس میں مساجد ، ان کے انتظامات چلانے والی تنظیموں اور بچوں کی گھر میں تعلیم سمیت مسلمانوں کی کڑی نگرانی کے لیے ریاسی اداروں کو کئی اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جماعت اس قانون سازی کے لیے زور و شور سے مہم چلائی جس کے نتیجے میں فرانسیسی قومی اسمبلی کے 347 ارکان نے اس قانون کے حق میں اور 151 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ 65 اراکین ایوان سے غیر حاضر رہے۔

فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے ایسے مجوزہ قوانین کی مخالفت کی گئی تھی جب کہ دوسری جانب دنیا کے 13 ممالک سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی 36 غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق میں اس قانون سازی اور فرانس میں مسلمان مخالف اقدمات کے خلاف اپیل دائر کی کر رکھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں