نوائے جنگ لندن — پچیس سالہ صحافتی سفر کی سلور جوبلی

آصف سلیم مٹھا ..مدیراعلیٰ

پنجاب کی سڑکیں آج بھیڑ سے بھری نہیں… آہیں بھرے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔
وہ لوگ جو صبح گھر سے روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں، مگر شام کو خالی جیب اور زخمی دل لے کر واپس لوٹتے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے چالان اب کاغذ کے ٹکڑے نہیں رہے—
یہ اب غریب کے سینے پر لگنے والے زخم بن چکے ہیں۔

کہا جاتا ہے اوپر سے آرڈر ہے…
روزانہ ٹارگٹ پورا کرنا ہے…
مگر کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ یہ ٹارگٹ پورا کرتے کرتے کتنے گھروں کے چولہے بجھ جاتے ہیں؟
کتنے بچوں کی فیسیں رہ جاتی ہیں؟
کتنی ماؤں کے ہاتھ خالی ہو جاتے ہیں؟

غریب کے پاس 2000 روپے ہوں یا نہ ہوں،
چالان ضرور کاٹا جاتا ہے۔
اس کی آواز کانوں تک نہیں، دلوں تک نہیں پہنچتی۔
اس کے آنسو شاید کسی کو دکھائی نہیں دیتے۔

مہنگائی کا طوفان پہلے ہی انسان کو پیروں سے گرا چکا ہے:
آٹا مہنگا، بجلی مہنگی، گیس مہنگی، دوائی مہنگی…
اور اب روزگار پر بھی پابندیاں:
رہڑیاں اٹھا لی جاتی ہیں،
چنگچی بند،
رکشہ بند،
جیسے غریب کے لیے زندہ رہنے کا بھی لائسنس چاہیے…
اور وہ بھی اس کے پاس نہیں!

غریب آدمی جب چالان بھرتا ہے،
وہ پیسے نہیں دیتا—
وہ اپنے بچوں کی خوشیاں گروی رکھتا ہے۔
وہ اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کی آخری امید کا دیا بجھا دیتا ہے۔
اور پھر بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

عوام کے دل ٹوٹ چکے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ انکے ساتھ کوئی انتقام لیا جا رہا ہے۔
کہ شاید 8 فروری 2024 میں جنہوں نے اپنا ووٹ محفوظ سمجھ کر ڈالا تھا،
آج اُنہی سے حساب لیا جا رہا ہے۔
شاید لوگوں کا یہ درد، یہ بدگمانی بھی انصاف نہ ملنے کا نتیجہ ہے۔
جب دل زخمی ہو جائے تو باتیں بھی زخموں کی طرح کڑوی ہو جاتی ہیں۔

لیکن حقیقت جو بھی ہو—
ایک حقیقت سب سے بڑھ کر ہے:
پنجاب کا غریب مر رہا ہے۔
وہ معاشی بوجھ تلے دبا جا رہا ہے۔پنجاب میں کسی کے گھر مرگ ہوجائے تو لواحقین بجلی کا بل روک کر کفن دفن کا سامان خرید لیتے ہیں
وہ سڑک پر کھڑا چالان نہیں بھرتا،
وہ اپنے خواب دفن کرتا ہے۔
اور یہ سب خاموشی سے… بے بسی سے… ٹوٹتے ہوئے دل کے ساتھ۔

کاش کسی کو احساس ہو—
کہ یہ قوم طاقتوروں کی نہیں،
اسی غریب کی وجہ سے قائم ہے۔
یہی غریب جب رو پڑے،
تو سمجھ لیں کہ پورا معاشرہ زخموں میں ڈوبا ہوا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں