islamabad rape case

اسلام آباد سرکاری افسر کی لڑکی سے مبینہ زیادتی کیس نیا رُخ اختیار کر گیا

اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت میں سرکاری افسر کے نوجوان لڑکی کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بنانے کے کیس نیا رُخ اختیار کر گیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق کچھ روز قبل 20 سالہ لڑکی نے سرکاری افسر پر زیادتی کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد پولیس نے ملازمت کی غرض سے آنے والی لڑکی سے زیادتی کے الزام میں گریڈ 17 کے ایک افسر کو گرفتار کیا تاہم اب لڑکی عدالت میں اپنے بیان سے مُکر گئی۔

لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ یہ سرکاری افسرمیرا ملزم نہیں ہے۔ پولیس نے میرا ذبردستی میڈیکل کروایا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں سرکاری ہاسٹل کے کمرے میں سرکاری آفیسر کی طرف سے 20 سالہ لڑکی ہما یوسف کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بنانے کے کیس نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔

مقدمے میں گرفتار اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکشن آفیسر ملزم رانا سہیل کو آج جمعرات،15 جولائی 2021ء سول جج جوڈیشل مجسٹریٹ شوکت رحمان خان کی عدالت میں پیش کیا گیا تو مدعیہ مقدمہ ہما یوسف نے عدالت کو بتایا کہ یہ تو میرا ملزم ہی نہیں ہے۔

مدعیہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ میں اپنا میڈیکل بھی نہیں کروانا چاہتی تھی، مگر پولیس نے زبردستی میرا میڈیکل کروایا۔جس پر عدالت نے اس ڈاکٹر کو بھی بیان قلمبند کرانے کے لیے طلب کرلیا،جس کے سامنے مدعیہ نے میڈیکل کروانے سے انکار کیا تھا۔ عدالت نے تفتیشی آفیسر سے کہا کہ اگر یہ اصل ملزم نہیں ہے، توپھر آپ کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔

عدالت نے پولیس کو حکم دیاکہ ملزم رانا سہیل کا میڈیکل کروا کر اسے دوبارہ عدالت میں پیش کرے۔ جس پر پولیس ملزم کو پمز اسپتال لے گئی۔جہاں ملزم سرکاری افسر کامیڈیکل کروایا گیا اورملزم کو دوبارہ عدالت میں پیش کیاگیا۔ عدالت نے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرکے ملزم کو میڈیکل رپورٹ سمیت دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

دوسری جانب میڈیا ذرائع کے مطابق جب تھانہ شہزاد ٹاؤن نے زیادتی کا یہ مقدمہ درج کرکے اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن کے سیکشن آفیسر کو گرفتار کیا تو کھلبلی مچ گئی تھی۔

اسی دباؤ میں آکر پولیس حکام نے تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ او سب انسپکٹر تراب الحسن کو فوری تبدیل کر دیا اور ان کی جگہ ایس پی انویسٹی گیشن برانچ سے سب انسپکٹر محمد عظیم کو ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاؤن تعینات کر دیاگیا ہے۔ مدعیہ مقدمہ ہمایوسف سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو اس کا بھی یہی کہنا تھاکہ پولیس نے جو ملزم گرفتار کیا ہے وہ اصل ملزم نہیں ہے۔

میرا اصل ملزم سی ایس پی آفیسر ہے۔ مدعیہ نے مزید کہا کہ پولیس مجھے دھمکیاں دے رہی ہے۔ میں شدید خوف میں مبتلا ہوں۔ اس لیے اس کیس کے حوالے سے مزید کچھ نہیں بتا سکتی۔ جبکہ نجی ٹی وی چینل کے ایک کرائم رپورٹر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں دعویٰ کیا کہ سرکاری افسر اسلام آباد میں لڑکی سے ریپ کرتا ہے، افسر دوستوں کی مداخلت سے 18 لاکھ سکہ رائج الوقت میں صلح ہوتے ہی اگلے دن لڑکی عدالت میں ملزم کو پہچاننے سے انکاری ہو جاتی ہے۔

متعلقہ ایس ایچ او کو بھی دبایا جاتا ہے۔ انہوں نے موجودہ صورتحال پر متعلقہ اداروں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آئیے سب مل کر اس نظام کی ایک بار پھر نماز جنازہ ادا کر لیں۔

یاد رہے کہ دو روز قبل پولیس نے ملازمت کی غرض سے آنے والی لڑکی سے زیادتی کے الزام میں گریڈ 17 کے ایک افسر کو گرفتار کیا تھا۔ اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ گریڈ 17 کے ایک آفیسر رانا سہیل اختر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔لڑکی نے پولیس کو دئیے گئے بیان میں بتایا کہ مذکورہ سرکاری افسر نے اسے نوکری دلوانے کے لیے پشاور سے اسلام آباد بلایا تھا۔لڑکے کے بیان کے مطابق ملزم پہلے اسے بہانے سے این سی آر سی کے ایک ریسٹ ہاؤس لے گیا اور میرے انکار پر زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں