wadala sandhuan

وڈالہ سندھواں تاریخ کے آئینہ میں

تحریر : محمد ندیم بھٹو

وڈالہ سندھواں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانہ میں دو برہمنوں نے جو آپس میں بھائی تھے یہاں آکر دو بستیاں آباد کیں – پنجابی زبان میں بڑے کو “وڈھا” اور چھوٹے کو “نڈھا” کہا جاتا ہے – جو بستی بڑے بھائی نے آباد کی وہ ” وڈھے والا” کے نام سے کہلای اور “وڈھے والا” سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً چار پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر جو بستی چھوٹے نے آباد کی وہ “نڈھے والا” کے نام سے کہلای یہ دونوں بستیاں مدت تک آباد رہیں – وقت کے ساتھ ساتھ ان کے نام بدل کر وڈھے والا سے وڈالہ اور نڈھے والا سے نڈالہ کے ناموں سے مشہور ھو گے- جو آج تک انہی ناموں سے پکارے جاتے ہیں – زمانے بدلتے ہیں تو انقلاب بھی آتے ہیں یہ دونوں بستیاں بھی کسی ایسے ھی انقلاب کی وجہ سے اجڑ گئیں – پھر چھ سو برس ھوے جب وڈالہ کی اس بستی کو گاجو بنسی قوم جاٹ سندھو نے آکر آباد کیا اس تاریخی کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے قوم جاٹ سندھو کے بارے میں جاننا ضروری ہوگا کیونکہ آگے چل کر یہی قوم جاٹ سندھو اس تاریخی کہانی کا مرکزی کردار ہو گی-

صدیوں پہلے جب آریا لوگ برصغیر پاک وہند پر حملہ آور ہوے تو سب سے پہلے “سپت سندھو” کے علاقہ میں آباد ہوئے – سپت کے معنی ہیں سات دریاؤں کی زمین اور سندھ کو ویدوں میں سندھو کا نام دیا گیا ہے – جس کے معنی دریا کے ہیں- دریائے کابل، دریا ے سندھ اور پنجاب کے پانچ دریا مل کر سات دریا بنتے ہیں – لہذا انہی سات دریاؤں کی زمین کو سپت سندھو کہا جاتا ہے – آریا کے معنی برتر اور ممتاز قوم کے ہیں – اسکے دوسرے معنی کاشتکار اور زمیندار کے بھی ہیں – قدیم آریا زبانوں میں جنگلی اور وحشی قبیلوں کو جاٹ کہا جاتا ہے جاٹ دو قسم کے قبیلے تھے – ایک قبیلہ ترک تاتاری جاٹ تھے جو ترکوں اور تاتاریوں کی طرح گورے چٹے تھے ان کا پیشہ دستکاری تھا – دوسرے آریا جاٹ تھے جن کا پیشہ کاشتکاری تھا- یہ لوگ گندمی اور پختہ رنگ کے تھے- یہ آہستہ آہستہ دریاے گنگا جمنا کے میدانوں تک پھیلتے چلے گئے – جو قبیلے دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ آباد ہوے وہ سندھو کہلاے- انہی سندھوؤں میں سے ایک سندھو کسی زمانہ میں اپنے خاندان سمیت ضلع امرتسر آکر آباد ہوا- اسکی اولاد پھلتے پھلتے گورداس پور لاہور – گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں بستی چلی گئی-

سندھو کی اولاد میں سے جو شخص سیالکوٹ میں آیا اسنے ڈسکہ کے جنوب کی جانب ایک گاؤں آباد کیا جسکا نام اسنے اپنے نام پہ موچل رکھا جو بعد میں موکھل سندھواں کے نام سے مشہور ہوا- یہ گاؤں آج بھی وڈالہ سندھواں کے مغرب کی جانب تقریباً تین چار کلومیٹر کے فاصلہ پر آباد ہے- موچل کی چند پشتوں کے بعد اسکی اولاد میں سے گاجو بنسی اور بالا نے موکھل سندھواں سے آکر وڈالہ کے رقبہ کا قبضہ کر لیا – گاجو بنسی نے تو پرانی آبادی کے نام پر ہی اس گاؤں کا نام وڈالہ رکھا – جب کہ بالا نےایک علیحدہ گاوں آباد کیا جو کوٹلی بالا کے نام سے مشہور ہوا – اس گاؤں میں بالا کی اولاد رہی – مگر کسی وجہ سے وہ بھی کوٹلی بالا کو چھوڑ کر وڈالہ میں آبسے- پھر گاؤں نڈالا بھی ان سندھو جاٹوں نے آباد کر لیا – یہ مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا – اس زمانہ میں وڈالہ سندھواں کے سندھو خاندان نے بڑی ترقی کی – یہاں تک کہ مغلیہ سلطنت نے اس خاندان کے ایک شخص درگامل کو مفصلات کے گاؤں کا چوہدری بنا دیا – یہ وڈالہ سندھواں اور اس کے نواحی علاقوں سے سلطنت مغلیہ کے لیے لگان وصول کرتا اور حکومت کے دیگر کام بھی بڑی وفاداری سے انجام دیتا تھا جو زمیندار حکومت کے لیے اپنے گردونواح کے علاقوں سے لگان وصول کیا کرتے تھے- انہیں رؤ، رائے یا راجہ کہا جاتا تھا – راجہ کی بیوی رانی کہلاتی تھی –

راجہ اپنے علاقے کا بااثر حکمران ہوتا تھا اور اپنے دفاع کے لئے فوج بھی رکھتا تھا – درگامل اپنے خاندان میں پہلا باقاعدہ راجہ تھا – شجرہ نصب کےمطابق راجہ درگامل کے ایک بیٹے کا زکر آتا ہے جسکا نام گور دتہ مل تھا- گوردتہ مل کے دو بیٹے تھے – بڑے کا نام سردار دیوان سنگھ اور چھوٹے کا نام سردار تخت سنگھ تھا- حکمرانی موروثی تھی- لہذا اپنے وقت پر راجہ درگامل کا پوتا سردار دیوان سنگھ اس عہدے پر مامور ہوا- اس خاندان میں راجہ دیوان سنگھ ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے سکھ مزہب اختیار کیا – راجہ دیوان سنگھ تاحیات سلطنت مغلیہ کا تابعدار رہا- اپنی اسی تابعداری کی وجہ سے اسے سلطنت مغلیہ کی جانب سے اپنے علاقہ میں تین گاؤں موضعات کے مالکانہ حقوق عطا ہوے- راجہ دیوان سنگھ کی وفات کے بعد اس کا لڑکا سردار مہتاب سنگھ اس عہدے پر فائز ہوا- اس زمانہ میں اس خاندان کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا –

شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ تیزی سے زوال پذیر ہو رہی تھی مغل شہزادوں میں تخت و تاج کی جنگ جاری تھی – امرا گروپوں میں بٹ چکے تھے – ہر طرف بد امنی کا دور دورا تھا – ہندوؤں، سکھوں،جاٹوں اور راجپوتوں میں سیاسی بیداری پیدا ہو چکی تھی – یہی وہ وقت تھا جب وڈالہ سندھواں کے راجہ مہتاب سنگھ نے محسوس کیا کہ اب سلطنت مغلیہ زوال پذیر ہے، لہذا اس نے چھوٹتے ہی 52 موضعات کا لگان جو اسکی نگرانی میں تھا دبا لیا – قارئین مغلیہ دور کی مزید تنزلی سے یقیناً بخوبی آگاہ ہوں گے اس لئے مزید تفصیل میں نہیں جاؤں گا – بعد ازاں وڈالہ سندھواں بتدریج اپنے ارتقاء کے سفر کی طرف رواں دواں رہا – یوں ہزاروں سال کی مسافت طے کرنے کے بعد آج کا وڈالہ سندھواں ایک مرکزی قصبہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور امید واشق ہےکہ کچھ ہی عرصہ بعد تحصیل بھی بن جائے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں