فیصل آباد میں 13 سالہ بچی کا 12 ہفتوں کی حاملہ ہونے کا انکشاف

فیصل آباد : فیصل آباد کے علاقہ چک جھمرہ میں 13 سالہ بچی سے زیادتی کی تصدیق ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق 13 سالہ بچی کچھ روز قبل چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو ملی جسے میڈیکل کے لیے اسپتال کے جایا گیا تھا۔ میڈیکل رپورٹ میں بچی کے 12 ہفتے کی حاملہ ہونے کا انکشاف ہوا جس سے بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی بھی تصدیق ہو گئی۔

میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ بچی سے اجتماعی زیادتی کی گئی۔ نامعلوم افراد نے بچی کو حبس بے جا میں رکھا اور کئی روز تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ بچی اہل خانہ کے بارے میں جانتی ہے اور نہ ہی اپنا اصل نام بتا سکتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں بچی سے زیادتی کی تصدیق کی گئی جس کے بعد بچی سے زیادتی کے جُرم میں نامعلوم افراد کے خلاف تھانہ جھمرہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

مقدمہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا کہنا ہے کہ بچی سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بچی کب سے گھر سے باہر تھی، نامعلوم افراد نے اسے کہاں رکھا، وہ لوگ کون تھے، کن لوگوں نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ، وہ کہاں رہتی ہے، اور اس کے گھر میں کس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم فی الوقت بچی کچھ بولنے یا بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران ملک بھر میں لڑکیوں بالخصوص کم سن بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں عوام نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے واقعات میں ملوث ملزمان کو کڑی سزائیں دیں تاکہ ایسے گھناؤنے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ زیادتی کے واقعات کے مجرموں کو کڑی سزائیں دینے کے لیے حکومتی سطح پر بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
گذشتہ برس نومبر میں وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس ہوا جس میں اینٹی ریپ آرڈیننس 2020ء اور فوجداری قوانین ترمیمی آرڈیننس 2020ء کی منظوری دی گئی تھی۔ اس قانون میں 10 سے 25 برس قید کے علاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں ہوں گی۔ کیمیکل کیسٹریشن کچھ کیسز میں مخصوص مدت کے لیے یا زندگی بھر کے لیے ہو سکے گی۔

کم سن بچیوں سے ہونے والی زیادتیوں کے واقعات پر ریاست مدینہ بنانے کے بلند و باگ دعوے کرنے والے حکمرانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر ایک واقعہ کے ملزمان کو سر عام پھانسی دے دی جائے تو دوبارہ کسی کی ایسی حرکت کرنے کی ہمت نہیں ہو گی لیکن ریاست کم سن بچیوں کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہی جس سے کم سن بچیوں سے زیادتی کے کیسز میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور یہ شرح کسی طور بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں