ڈپٹی سپیکر رولنگ کا معاملہ، سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

اسلام آباد :سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر رولنگ کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کہ معزز جج صاحبان کی جانب سے 5بج کر 45 منٹ پر سنایا جائے گا۔یاد رہے کہ پرویز الہیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے دوران ڈپٹی سپیکر کی جانب سے ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ آئین کی مضبوطی چاہتا ہے تمام وکلاء کے شکر گزار ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں، کوئی شبہ نہیں پارٹی سربراہ کا اہم کر دار ہے ، تاہم ووٹنگ کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی ہیڈ دیتا ہے ،اختیارا ت پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل نہیں ہیں مجھے دلائل دینے کی اجازت دی جائے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ بیمار ہیں اور یبرون ملک علاج کروا رہے ہیں ، یکم تاریخ کو واپس آ ئیں گے ، اس وقت تک انتظار نہیں کر سکتے ۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کو اختیار دینا ضروری ہے ،پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کرنا پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ واضح رہے کہ اگر کسی ممبر کو پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دینا تو استعفیٰ دے کر دوبارہ آ جائے ، وکیل علی ظفر نے عائشہ گلالئی کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کی ہدایت کا طریقہ کار دے چکی ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عائشہ گلا لئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کے خلاف جاتا تھا ، علی ظفر نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس میرے موکل کے خلاف لیکن آئین کے مطابق ہے ،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کی ، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں ۔ عرفان قادر نے عدالت میں بتایا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہاہے ،فل کورٹ کے حوالے سے فیصلے پر نظر ثانی دائر کریں گے ،فاروق نائیک نے بھی کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کر دیا اور کہا کہ میرے موکل کی جانب سے بھی یہی ہدایت ہے ، عدالت نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں ،اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایت کون دے سکتا ہے ۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایت پارلیمانی پارٹی نے دینی ہے ،اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ،یہ ایسا سوال نہیں تھا کہ اس پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی ،اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضروت نہیں ،اس کیس کو جلد مکمل کرنے کوترجیح دیں گے ، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التواءکا شکار کرنے کے مترادف ہے ،فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبر تک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں عدالتی فیصلوں سے واضح ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر عمل کرنا ہو تاہے ، جسٹس عظمت سعید نے فیصلے میں پارٹی سربراہ کی ہدایت پر عمل کرنے کا کہا ،فریقین کے وکلاءکو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا ، صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کا بینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی ، عدالت کا مؤقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی ،فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں