سید علی گیلانی کا سانحہِ ارتحال

اشتیاق گھمن، لندن

سید علی گیلانی مرحوم کی تقاریر سنتے بچپن اور جوانی گزر گئی۔ کبھی تصور بھی نہیں گزرا تھا کہ اُن جیسے کوہِ استقامت بھی ہمیں چھوڑ جائیں گے۔ آپ کی پوری زندگی صبر و ہمت کی زندہ مثال تھی۔ پاکستان کی ڈانواں ڈول کشمیر پالیسیوں اور بے وفائیوں کے باوجود آخری لمحے تک آپ کے پائے استقلال ڈگمگانے نہ پائے ۔ آپ فی الواقع تحریکِ آزادی کا استعارہ تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کی بھرپور بانوے بہاریں دیکھیں، لیکن آپ کل بیماری کے ہاتھوں ہار گئے۔ آپ کی رحلت سے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو یقیناً بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ آپ حریت کانفرنس کے اتحاد کی علامت تھے۔ آزادی کی قیمت بلاشبہ یہی نفوس جان سکتے ہیں کہ جن کی پوری زندگی آزادی پر قربان ٹھہری ہے۔

گیلانی صاحب جمہوری اقدار کے اصل امین تھے۔ آپ عوامی رائے کا مِن و عَن احترام کرنے والے شخص تھے۔ سری نگر کی وہ عید گاہ کہ جہاں کشمیری قوم کا جمِ غفیر عیدین کی نماز ادا کیا کرتا تھا، آج وہاں لاکھوں شہیدوں کی قبریں بن چکی ہیں، جسے اب مزارِ شہدا کہا جاتا ہے۔ گیلانی مرحوم نے مزارِ شہدا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں الحاقِ پاکستان کی علامت ہوں، لیکن اگر کشمیری عوام خود مختاری یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو میں دل و جان سے اس فیصلے کو مانوں گا۔

آپ ایسے اصول پرست انسان تھے کہ آپ نے بھارت کے ساتھ صرف اس لیے مذاکرات نہیں کیے، کیونکہ آپ پوچھتے تھے کہ بات چیت کرنے سے پہلے ایجنڈا طے کیا جائے کہ مذاکرات کا موضوع کیا ہو گا اور گفتگو کن نکات پر ہوگی۔ اسی اصول پرستی کی وجہ سے ہندوستانی سرکار آپ کو ہٹ دھرم گردانتی رہی۔ آپ ایسے اعلیٰ ظرف انسان تھے کہ بھارتی وزیرِ اعظم کو خط لکھتے ہوئے چندر شیکر کے نام کے ساتھ محترم اور صاحب کے سابقے و لاحقے لگاتے۔ آج تو بیساکھیوں نے ایسے ایسے کم ظرف لیڈر ہم پر مسلط کر دئیے ہیں کہ جو موت تک کا تمسخر اڑانے سے باز نہیں رہتے اور جب بھی منہ کھولتے ہیں، تو ان کی زبان سے کسی کی بیٹی محفوظ رہ پاتی ہے اور نہ کسی گھر کی عزت۔

آپ نے 1971 کی حضوری باغ والی اپنی تاریخی تقریر میں فرمایا کہ دریائے جہلم کی مچھلیاں آزاد کشمیر جا سکتی ہیں، مقبوضہ وادی کے پرندے مظفر آباد جا سکتے ہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر کا ایک باسی دریا کے اُس پار نہیں جا سکتا۔

گیلانی صاحب کا وہ تاریخ ساز خطاب کہ جس میں انہوں نے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو مخاطب کرتے فرمایا تھا کہ محض اسلام کی نسبت اور تعلق سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔

ان کے انتقال کا دکھ شاید پاکستانیوں اور مسلمانوں کو اتنا نہ ہو کہ جتنا اعتدال پسند ہندو بھارتیوں کو ہے۔ ان کی عظمت کے قائل عیسائی بھی تھے اور کئی دوسرے غیر مسلم بھی۔ ہم مسلمانوں نے تو بس ان کے ساتھ دغا ہی برتا۔ وہ پاکستان کی کشمیر کمیٹی تک سے کبھی مطمئن نہ رہے۔ ان کے نام کے طفیل پاکستان اور پاکستان سے باہر بہت سے لیڈر بن اٹھے۔ بہت سے گم ناموں کو کشمیر نے نامور بنا دیا۔ کشمیر کاز سے لاکھوں کے دھندے چل پڑے۔ مسئلہِ کشمیر سے اَن گنت بے روزگاروں کی روزی روٹی وابستہ ہے۔ کئی اس انسانی مسئلے کی وجہ سے خبروں میں زندہ ہیں۔ جن جن کا مفاد کشمیر سے وابستہ ہے، دیانت داری سے بتائیے، کیا وہ دل سے اس کے حل کی کوشش کریں گے؟

مقدم نور کے ساتھ ظلم ہوا، اس کو انصاف ضرور ملنا چاہئے، لیکن اس عورت پر ہونے والے ظلم پر ٹسوے بہانے والے وہ جتھے کہ جو حقوقِ نسواں کے مروڑ لیے سڑک پر کھڑے ہو جاتے ہیں، آج ان کی زبانیں گُنگ دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ گیلانی مرحوم کی موت دائیں یا بائیں بازو سے بہت اوپر کی سطح کی ہے۔ سچ بتاؤں تو جتنے تنگ نظر، بد نیت اور منافق یہ روشن خیال واقع ہوئے ہیں، شاید ہی کوئی ہو۔ مجھے بتائیے، مسئلہ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے یا انسانی؟ کشمیری کیا انسان نہیں؟ کشمیری عورتوں کے حقوق نہیں؟

وہاں کی خواتین کے لیے پلے کارڈز اٹھاتے آپ کو کیوں دندل پڑ جاتی ہے؟ گیلانی مرحوم نے کیا ساری زندگی پاکستان کی جنگ نہیں لڑی؟ اگر وہ سمجھوتہ کر لیتے تو کیا عبد اللہ فاروق یا محبوبہ مفتی سے کہیں زیادہ مراعات نہیں سمیٹ سکتے تھے؟ کیا آپ پاکستانی نہیں یا پھر احسان فراموش ہو؟ سچ کہوں تو آپ کھوکھلے ہو، کج فہم ہو، راست باز نہیں، بد طینت ہو، بد نیت ہو، تعصب کا شکار ہو۔ تمہیں ہر اس موت پر دلی سکون ملتا ہے جو پاکستانیت اور اسلام کے لیے دھڑکتا رہا ہو۔ تم خس و خاشاک ہو۔ تم کچھ بھی نہیں۔

اے محسنِ پاکستان، اے بطلِ رشید، اے رجلِ عظیم، اے پیکرِ اخلاص و وفا، اے آلِ سادات، اے سید علی گیلانی، الوداع۔

انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

یا اللہ، کشمیر پر اپنی جانیں لٹانے والوں کی قربانیوں کو قبول فرما اور کشمیر بیچنے والوں کو اس دنیا میں ہی عبرت کا نشان بنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں