ریسٹورنٹ کی خواتین مالکان نے انگلش فرفر نہ بولنے پر اپنے منیجر کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا

لاہور : سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں دو ماڈرن خواتین جو کہ خود کو ایک ریسٹورنٹ کا مالک بتاتی ہیں وہ اس ریسٹورنٹ کے منیجر کو بلا کر اس کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کرتی ہیں۔جب کہ منیجر کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہوتی جس پر وہ اس کا مذاق بناتی ہیں اور تمسخر اڑاتے ہوئے ہنستی بھی ہیں۔خواتین ویڈیو کے آغاز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتی ہے کہ میرا نام عظمیٰ ہے اور میرے ساتھ ”دیا” ہے۔
ساتھ ہی وہ دیا کو اپنے منیجر کے ساتھ چند سوال انگریزی میں پوچھنے کی دعوت دیتی ہے۔دیا منیجر سے انگریزی میں پوچھتی ہے کہ آپ کو ہمارے ساتھ کام کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ 9 برس۔ ساتھ ہی دیا سوال کرتی ہے کہ انگریزی کتنے عرصے میں سیکھی تو وہ بتاتا ہے کہ ایک سال اور چھے ماہ میں۔
اس کے بعد خاتون اگلا سوال کرتی ہے کہ اپنا تعارف انگریزی میں کروائیے۔

اس پر منیجر پہلے تو جھینپ جاتا ہے اور بعدازاں گویا ہوتا ہے کہ میرا نام اویس ہے اور میں یہاں منیجر کی نوکری کرتا ہوں اور بس۔ اس کے بعد منیجر کی انگریزی ختم ہو جاتی ہے اور وہ شرمندہ ہو کر چپ ہو جاتا ہے۔ جس پر دونوں ماڈرن خواتین ٹھٹھے اڑاتی اور منیجر کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے تضحیک آمیز لہجے میں کہتی ہیں کہ آپ اندازہ لگائیں اس شخص کے ساتھ ہم اتنے عرصے سے کام کررہے ہیں اور اسے انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا جبکہ یہ ہمارے اتنے اچھے ریسٹورنٹ کا منیجر ہے۔
ان الفاط پر ریسٹورنٹ منیجر اویس خاموشی سے کھڑا رہتا ہے کہ اس کے پاس سوائے شرمندگی سے سر جھکانے کے اور کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر آتے ہی وائرل ہو گئی ہے اور سوشل میڈیا صارفین نے دونوں ماڈرن خواتین کو خوب تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے کہ انہیں سامنے کھڑے شخص کی عزت نفس کا ذرا بھی خیال نہیں۔ جبکہ کئی سوشل میڈیا صارفین نے یہ بھی کہا کہ انگریزی آنے سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ یا پھر اسٹیٹس کا پتا نہیں چلتا بلکہ اچھے اخلاق اور خلوص سے ہی انسان پہچانا جاتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ اخلاقیات تعلیم کے محتاج نہیں ہوتے۔تعلیم انسان کے پاس آ بھی جائے تو تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک کہ انسان خود اپنے آپ میں تبدیلی لانے کا ارادہ نہ کر لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں